پیر 17 اگست 2020 - 17:25
تحفظ غدیر، تعمیر کربلا کا اہم ترین مقصد

حوزہ/ کربلا کی تعمیر کا اہم ترین مقصد امیر المومنین کی ولایت اور غدیر ی اسلام کا تحفظ تھا ، امام حسینؑ اس اسلام کی حفاظت کے لئے میدان کربلا کی طرف تشریف لے گئے جسے خداوندعالم نے آیۂ اکمال میں "الاسلام" سے تعبیر فرمایا ہے۔

تحریر: مولانا سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری

حوزہ نیوز ایجنسی | کربلا کی تعمیر کا اہم ترین مقصد امیر المومنین کی ولایت اور غدیر ی اسلام کا تحفظ تھا ، امام حسینؑ اس اسلام کی حفاظت کے لئے میدان کربلا کی طرف تشریف لے گئے جسے خداوندعالم نے آیۂ اکمال میں "الاسلام" سے تعبیر فرمایا ہے اور جس کی اساس پر خداوندعالم نے مسلمانوں پر اپنی نعمتیں تمام کیں اور اپنی رضایت و خوشنودی کا اظہار فرمایا ۔چنانچہ اگر غدیر سے لے کر سقیفہ اور سقیفہ سے لے کر واقعہ کربلاتک کے سیاسی اور تاریخی واقعات کا تجزیہ و تحلیل کیاجائے تو حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہوجائے گی۔ اسی لئے امام جعفر صادق علیہ السلام نے واضح لفظوں میں فرمایا :
اذا کتب الکتاب قتل الحسین '' جس وقت غدیر کے بالمقابل سقیفہ کا عہد نامہ لکھاگیا تھا حضرت امام حسین شہید ہوگئے تھے''۔(١)
امام حسینؑ کے خونیں قیام کا مقصد و ہدف '' ولایت امیر المومنین کا احیاء '' تھا،اسی لئے امام حسینؑ نے اپنے قیام کے مقصد کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
انی لم اخرج اثرا و لا بطرا و لا مفسدا و لا ظالما و انما خرجت لطلب الاصلاح فی امة جدی ، ارید ان آمر بالمعروف و انہی عن المنکر و اسیر بسیرة جدی و ابی علی بن ابی طالب ''میں خود پسندی ، گردن کشی اور ظلم و فساد کے لئے نہیں نکل رہاہوں بلکہ اپنے جد کی اصلاح کے لئے قیام کررہاہوں ، میں چاہتاہوں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کروں اور اپنے نانا اور اپنے والدگرامی علی بن ابی طالب کی سیرت پر عمل کروں''۔(٢)
اس سے معلوم ہوتاہے کہ امام کا مقصد قیام '' امر بالمعروف اور نہی عن المنکر'' ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا معروف صرف نماز پڑھنا، زکات ادا کرنا ، حج بجا لانا اور اسلامی حجاب کی رعایت کرنا ...ہے ؟ اور منکر سے مراد نماز نہ پڑھنا ، زکات ادا نہ کرنا اور بے حجابی اور بد حجابی وغیرہ ہے ؟
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: معروف ، امیر المومنین ہیں اور اور منکر خلفائے ظلم و جور ہیں۔ اگر اسلامی معاشرے میں امیر المومنین کی ولایت کو رائج کیاجائے تو نماز ، روزہ ، حج اور حجاب وغیرہ بھی رائج ہوجائیں گے لیکن اگر ولایت کے بجائے ظلم و جور اور طاغوت حاکم ہوجائے تو پھر یہی تمام چیزیں منکرات کی جڑقرار پائیں گی ۔
شیخ مفیدؒ اپنی سند سے نقل کرتے ہیں:
لما قدم الصادق العراق نزل الحیرة فدخل ابو حنیفہ و سالہ عن مسائل و کان مما سالہ ان قالہ : جعلت فداک ماالامر بالمعروف ؟ فقال علیہ السلام : المعروف یا ابا حنیفہ ! المعروف فی اہل السماء ، المعروف فی اھل الارض وذاک امیر المومنین علی بن ابی طالب قال جعلت فداک فما المنکر قال اللذان ظلماہ حقہ''جب امام صادق عراق تشریف لائے اور حیرہ میں وارد ہوئے تو ابو حنیفہ نے آپ کی خدمت میں پہونچ کر چند مسائل کے بارے میں سوال کیا،ان میں سے ایک یہ تھا کہ انہوںنے کہا: قربان جائوں امر بالمعروف سے کیا مراد ہے ؟ حضرت نے فرمایا: اے ابو حنیفہ ! اہل آسمان اور اہل زمین میں معروف سے مراد امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب کی ذات گرامی ہے ۔پھر ابو حنیفہ نے کہا: قربان جائوں منکر سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا :ان کے حق کی پامالی اور ان پر ظلم و ستم ،منکر ہے ''۔(3)
امام حسین معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کو ختم کرنے کے لئے کربلا میں شہید ہوئے لیکن آپ لوگوں کو تمام تر برائیوں کی جڑ اور نیکیوں سے انحراف کے اہم ترین سبب کی طرف متوجہ کرنا چاہتے تھے ، آپ کی نظر میں تمام برائیوں کی جڑ ظلم و جور کی حاکمیت اور تمام نیکیوں سے انحراف کا اہم ترین سبب ''ولایت امیر المومنین سے انحراف '' تھا۔آپ اپنے قیام سے اسی ولایت کو زندہ کرنا چاہتے تھے۔
امام علیہ السلام نے عملی سیرت کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی میں متعدد موقعوں پر اپنے قول کے ذریعہ بھی غدیر کی تبلیغ فرمائی ہے ؛یہاں صرف ایک نمونے کی جانب اشارہ کیاجارہاہے :معاویہ کی موت سے دو سال قبل امام حسین نے حج بیت اللہ کا ارادہ فرمایا،آپ کے ہمراہ عبداللہ بن عباس وعبداللہ بن جعفر بھی تھے۔اس موقع پر امام نے بنی ہاشم کے مردوزن حاجی وغیرحاجی ،دوست دار شیعوں کے علاوہ معرفت شناس انصار جو صحابہ وتابعین میں عبادت گزار اور نیکیوں سے آراستہ تھے،سب کو جمع کیا ،منیٰ کے میدان میں لگ بھگ سات سو آدمیوں میں معزز تابعین کی اچھی خاصی تعداد تھی۔اور تقریباً دو سو اصحاب رسول ؐبھی تھے،ان کے درمیان کھڑے ہو کر حمد وثنائے الٰہی کے بعد فرمایا:
... انشدکم اللہ اتعلمون ان رسول اللہ نصبہ یوم غدیر خم فنادی لہ بالولایة و قال : فیبلغ الشاھد الغائب ''...تمہیں خدا کی قسم ہے ،کیا جانتے ہو کہ رسول خدا نے غدیر خم کے دن انہیں منصوب فرمایا اور ان کی ولایت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا : حاضرین غائبین تک ( اس پیغام ) کو پہونچا دیں ''۔سب نے کہا : خدا کی قسم ! ہاں ہم جانتے ہیں ۔(4)

حوالہ جات
١۔اصول کافی ، کلینی ج٢ ص ٨٦؛ بحار الانوار ج٢٤ ص ٣٦٥
٢۔بحار الانوار ج٤٤ ص ٣٢٩۔٣٣٠
3۔بحار الانوار ج١٠ ص ٢٠٨؛ج٢٤ص٥٨؛ البرہان فی تفسیر القرآن ج٥ ص ٧٤٩
4۔ کتاب سلیم بن قیس ہلالی ج2 ص 788

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .